Skip to main content

Women's Health's

 

 Women's Health's 

اس پیج کا مقصد، صحت سے متعلق، بچوں سے متعلق، گھریلو امور سے متعلق، تعلیم و تربیت سے متعلق اور دیگر معلوماتی تحاریر، تصاویر اور وڈیو فراہم کرنا ہے۔
ایسی مختلف موضوعات پر تحاریر شیئر کی جاتی ہیں جو کہ آپ کے لئے، آپ کی فیملی کے بہت ضروری ہوتی ہیں، انشاءاللہ آپ کو ہر موضوع پر منفرد معلومات ملتی رہیں گی،
ذاتی علاج یا میڈیکل مشورے کے لئے کلینک یا ہسپتال میں مستند ڈاکٹرز، اسپیشلسٹ، یا حکیم سے رابطہ کریں، اکثر ممبران ہم سے بیماریوں کے علاج پوچھتے ہیں ہمارے لئے ممکن نہیں کہ ہم کسی بیماری پر علاج تجویز کریں۔

The purpose of this page is to provide informational articles, photos and videos related to health, children, home affairs, education and training.
Articles are shared on various topics that are very important for you, your family. Inshallah, you will continue to get unique information on each topic.
Contact a qualified doctor, specialist, or physician in a clinic or hospital for personal treatment or medical advice. Most members ask us for treatment of ailments. 

Breast milk: the basic right of every child, the guarantor of the health of mother and child

ماں کا دودھ: ہر بچے کا بنیادی حق، ماں اور بچے کی صحت کا ضامن

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
‏السَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
ماں کا دودھ: ہر بچے کا بنیادی حق، ماں اور بچے کی صحت کا ضامن
سنڈے میگزین AUGUST 01, 2021
ماں کا دودھ: ہر بچے کا بنیادی حق، ماں اور بچے کی صحت کا ضامن
اللہ تعالیٰ نے کئی سو سال قبل قرآنِ پاک میں ماں کے دودھ کی اہمیت و افادیت بیان فرما دی تھی اور آج طبّی سائنس بھی اس بات کی معترف ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت، ورلڈ الائنس فار بریسٹ فیڈنگ ایکشن اور یونیسیف کے اشتراک سے ہر سال دُنیا بَھر میں اگست کا پہلا ہفتہ’’بریسٹ فیڈنگ اوئیرنیس‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے۔واضح رہے کہ پہلی باربریسٹ فیڈنگ اوئیرنیس ویک1992ءمیں ایک تھیم منتخب کرکے 120سے زائد مُمالک میں منایاگیا،جس کے بعد سے تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔رواں برس کا تھیم "Protect Breastfeeding:A Shared Responsibility"​ہے۔ اِمسال عالمی ادارۂ صحت، یونیسیف کے اشتراک سے ’’خاندان دوست پالیسیز‘‘ (Family Friendly Policies)کی اہمیت اُجاگر کررہا ہے، تاکہ والدین اور نومولود کے درمیان ابتدا ہی سے محبّت اور یگانگت کو فروغ دیا جاسکے۔ان پالیسیز کے تحت ایک بچّے کی پیدایش کے موقعے پر ماں اور باپ دونوں ہی کے لیے کم از کم 18 ہفتے کی چُھٹیاں بمع تن خواہ تجویز کی جارہی ہیں۔نیز، اُن ملازمت پیشہ ماؤں کو، جو بچّے کی ولادت کے بعد اپنے کام پر واپس آئیں، تو بچّے کو اپنا دودھ پلانے کے لیے کام کے دوران وقفہ دینا اور الگ سے جگہ مہیا کرنا بھی کمپنی مالک کی ذمّے داریوں میں شامل ہوگا۔ دراصل جب ہم خاندان، جائے ملازمت اور معاشرے کو بااختیار بنائیں گے، توہی بریسٹ فیڈنگ کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دُور کی جاسکیں گی اورہم سب مل کر ہی اس تبدیلی کے مآخذ بن سکتے ہیں۔نیز، ماؤں میں بریسٹ فیڈنگ کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے دودھ پلانے والی ماؤں پر مشتمل گروپس بھی تشکیل دئیے جاسکتے ہیں، جو دیگر ماؤں کی مشکلات و مسائل کے پیشِ نظر ان کی رہنمائی کرسکیں۔ اس کے علاوہ گائناکولوجسٹس اور نرسز بھی اس ضمن میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔دوسری جانب اس سلسلے میں حکومت کو بھی چاہیے کہ وقتاً فوقتاً آگاہی مہمات کے ذریعے ماں کے دودھ کی اہمیت و افادیت اُجاگر کرے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ماں کا دودھ زچہ و بچّہ دونوں ہی کی زندگیاں بچاتا ہے۔ بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے پوری دُنیا میں ہر سال سات لاکھ سے زائد بچّوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں، جن میں زیادہ تر چھے ماہ سے کم عُمر بچّے شامل ہیں۔یاد رکھیں،ماں کا دودھ صرف بچّے ہی کے لیے فائدہ مند نہیں، بلکہ یہ عمل خود ماں کے لیے بھی بے شمار فوائد کا سبب بنتا ہے۔مثلاً ماؤں کو بریسٹ اور بچّہ دانی کے سرطان، ذیابطیس اور دِل کے امراض سے تحفّظ فراہم کرتا ہے، جب کہ بریسٹ کینسر کے سبب ہونے والی سالانہ 20ہزار ماؤں کی شرحِ اموات میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔اس کے علاوہ ماں کے دودھ کا استعمال معاشی اعتبار سے بھی مفید ہے کہ اگرڈبّےکے دودھ کی مَد میں خرچ ہونے والی سالانہ رقم کا اندازہ لگایا جائے، تو بریسٹ فیڈنگ نہ کروانے کی قیمت کافی زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔٭ماں کا دودھ کب اور کیسے دیا جائے :عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات کے مطابق ماں کو چاہیے کہ پیدایش کے پہلے گھنٹے میں نومولود کو اپنا دودھ پلائے۔نیز،بچّہ جتنی باردودھ پیے، اُسے روکا نہ جائے۔ عام طور پر پیدایش کے بعد پہلے چند ہفتوں میں دودھ پلانے میں دو تا تین گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ بچّہ جب بھی دودھ پیے تو دونوں سائیڈز سےباری باری10 تا 15 منٹ پلایا جائے۔ ماہرینِ اِطفال پیدایش کے فوری بعد ہی بچّے کو ماں کا دودھ پلوانےکی سفارش کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو بچّے کو دودھ پلا نے کا درست طریقہ معلوم نہیں ہوتا ،اسی لیے وہ فیڈر کے ذریعے دودھ پلانے کو ترجیح دیتی ہیں۔نومولود کو پہلی بار دودھ پلانے کے لیے تجربہ کار نرسز یا گھر کی بڑی بوڑھیوں کو اپنی ذمّے داری ادا کرنی چاہیے۔ ایک آدھ بار کی کوشش سے بچّہ خود ہی دِل چسپی ظاہر کرتا ہے اور فیڈ لینا شروع کردیتا ہے۔نومولود کا ماں کے ساتھ جلد از جلد جسمانی رابطہ، جسے ’’کینگرو نگہداشت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، بچّے کو ماں کا دودھ پینے کی جانب نہ صرف راغب کرتا ہے، بلکہ اسے گرماہٹ اور تحفّظ کا بھی احساس دلاتا ہے۔قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچّوں کو پیدایش کے فوری بعد بریسٹ فیڈنگ میں دشواری ہوتی ہے۔ روایتی طور پر ایسے بچّوں کو ٹیوب یا بوتل کے ذریعے ماں کا یا پھر معالج کا تجویز کردہ فارمولا دودھ اُس وقت تک پلایا جاتا ہے، جب تک وہ براہِ راست ماں کا دودھ پینےکے قابل نہ ہو جائیں۔ ابتدا میں ماں کے دودھ کی مقدار خاصی کم ہوتی ہے۔تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ شروع ہوجاتا ہے، تاکہ بچّے کی غذائی ضروریات پوری ہوسکیں۔ بعض اوقات بچّہ پیٹ بَھر جانے کے باوجود بھی ماں سے چمٹا رہتا ہے، خاص طور پر اُس وقت، جب وہ تنہائی، خوف یا درد محسوس کررہا ہو۔ یہ عین فطرت کے مطابق ہے،پریشانی کی بات نہیں،لہٰذا اس صُورتِ حال میں ماں، بچّے کے ساتھ زبردستی نہ کرے۔ نوزائیدہ بچّوں کی اکثریت 10تا15 منٹ دونوں جانب سے دودھ پیتی ہے۔ تاہم، اگر کوئی بچّہ ہر جانب سے30منٹ یا اس سے زیادہ دیر تک دودھ پیے، تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے ضرورت کے مطابق دودھ نہیں مل رہا۔صحت سے متعلقہ تنظیمیں پیدایش کے ابتدائی چھے ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانے کی سفارش کرتی ہیں، ماسوائے اس صُورت کے، جب بچّے یا ماں کو کوئی طبّی مسئلہ ہو۔ واضح رہے کہ صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانے کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران بچّے کو معدنیات، وٹامنز یا ادویہ کے علاوہ پانی، جوس ، ڈبّے کا دودھ یا کھانے کی کوئی اور شے نہ دی جائے۔ اس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت نے دو سال یا اس سے زیادہ عُمر کے بچّوں کو ان کی طلب پر متواتر بریسٹ فیڈنگ کی سفارش کی ہے۔یاد رکھیے، قدرتی طور پر بچّے کی طلب کے مطابق دودھ بنتا ہے،لیکن اگر بچّے کو دودھ نہ پلایا جائے، تو اس میں کمی واقع ہونی شروع ہوجاتی ہے۔٭بچّے کے لیے ماں ہی کا دودھ کیوں ضروری ہے؟قدرتی طور پر ماں کا دودھ بچّے کے لیے ایک مکمل اور بہترین غذا ہے۔ اس میں موجود تمام اجزاء جسمانی اور ذہنی نشوونما کی ضروریات کے عین مطابق پائے جاتے ہیں، جب کہ بچّے کی ضروریات کے اعتبار سے ماں کا دودھ اپنے اجزائے ترکیبی مستقل تبدیل کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں بیماریوں سے بچاؤ کے لیے قدرتی طور پر اینٹی باڈیز بھی پائی جاتی ہیں، جو کسی بھی قسم کے ڈبّے والے دودھ میں نہیں ہوتیں۔ ماں کا دودھ نہ صرف بیماریوں سے تحفّظ فراہم کرتا ہے، بلکہ رات میں پینے سے بچّے کو کوئی طبّی تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ نیز، ان کی عمومی صحت، بڑھوتری اور نشوونما مناسب رہتی ہے۔اصل میں بوتل کے ذریعے دودھ پینے والے بچّوں میں پیٹ کے درد کی تکلیف بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ پھر بوتل سے دودھ پیتے وقت، سَر نیچا ہونے کی وجہ سے اکثر دودھ کان میں چلا جاتا ہے، جو انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔یاد رکھیے، جو بچّے ماں کا دودھ نہیں پیتے، اُن میں سینے، کان، خون، پیشاب کی نالیوں اور آنتوں کے انفیکشنزکے امکانات کم پائے جاتے ہیں، تو اچانک موت کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ اسے طبّی اصطلاح میں "SIDS:Sudden Infant Death Syndrome" کہاجاتا ہے، جب کہ ماں کا دودھ نہ پینے والے بچّوں میں پیدایش کے ایک ماہ کے اندر ایس آئی ڈی ایسکے امکانات چھے گنا زائد پائے جاتے ہیں۔نیز، یہ بچّےآنتوں کی بیماریوں کے بھی جلد اور بار بارشکار ہوتے ہیں۔ ماں کے دودھ پر پرورش پانے والے بچّوں میں بچپن میں سرطان، موٹاپے اور ذیابطیس سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں،تو ان میں سانس کی نالی کے انفیکشن اور اسہال کا خطرہ بھی کم پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بریسٹ فیڈنگ بچّے کو آئندہ زندگی میں دَمے، ایگزیما اور مختلف چیزوں سے ہونے والی الرجی سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ پھر ایسے بچّوں کی دماغی صلاحیتیں بھی خُوب اچھی طرح پروان چڑھتی ہیں۔ماں کے جسم میں موجود ویکسینز، جو تشنج، خنّاق، کالی کھانسی اور انفلوئنزا کے خلاف مدافعت پیدا کرتی ہیں، وہ بچّے کو بھی ان امراض سے تحفّظ فراہم کرتی ہیں۔ان بچّوں میں کولیسٹرول کی مقدار کم رہتی ہے اور یہ امراض ِقلب سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، بوتل کے ذریعے دودھ پینے والے بچّوں کی نسبت ان کے منہ کی بناوٹ اور سانس کی نالی زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ نیند میں خراٹے یا سانس بند ہونے کی شکایت بھی نہیں ہوتی ۔پھر ماں کا دودھ بچّے کا وزن متناسب رکھتا ہے، اسی لیے یہ بچّےموٹاپے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے،عموماً دبلے پتلے اور پھرتیلے ہوتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں ایسے مادّے بھی پائے جاتے ہیں، جو اعصاب اور آنکھوں کے نظام کی نشوونما میں مدد گارثابت ہوتے ہیں۔اور اس میں موجود غذائی اجزاء ہمیشہ ایک جیسے بھی نہیں رہتے، بلکہ عُمر بڑھنے کے ساتھ اور دودھ پلانے کے دورانیے کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ماں کے دودھ کی پہلی قسم، جو پیدایش کے بعد ابتدائی دِنوں میں تیار ہوتی ہے، کلوسٹرم(Colostrum)کہلاتی ہے، اسے نومولود کے لیے ہضم کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ دراصل اس میں ایسے اجزاء شامل ہوتے ہیں، جو بچّے کو جلدی motion pass کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔اس کے علاوہ یرقان اور بیرونی مادّوں کے ذریعے ہونے والی پیٹ کی خرابیوں سے بھی تحفّظ ملتا ہے۔ اگرچہ آنول نال کے ذریعے بچّے کو کچھ اینٹی باڈیز پہلے ہی سے حاصل ہوجاتی ہیں، لیکن ابتدائی دودھ میں ایک ایسا مخصوص مادّہ شامل ہوتا ہے، جو نوزائیدہ کے گلے، پھیپھڑوں اور آنتوں کو جراثیم کے حملے سے بچانے میں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ ولادت کے تیسرے یا چوتھے دِن سے ماں کے دودھ کے غذائی اجزاء تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں، جو پھر بتدریج بچّے کی ابتدائی ضروریات پوری کرنے کے بعد مکمل غذا کا روپ دھار لیتے ہیں۔٭دودھ پلانے والی مائیں کئی طبّی مسائل سے محفوظ رہتی ہیں: اگر کوئی ماں کم علمی یا مصروفیات کے سبب بچّے کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تو یہ عمل خود اس کی اپنی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہے۔دراصل،دودھ پلانے والی مائوں میں بریسٹ کینسر کی شرح کم ہوجاتی ہے۔ جسم میں موجود فاضل چربی ختم ہونے کے ساتھ دورانِ حمل وزن بڑھ جانے کے سبب ڈائٹنگ نہیں کرنا پڑتی اورقدرتی طور پر وزن متناسب ہوجاتا ہے، بچّہ دانی کا حجم(ماں کا رحم) جلد نارمل ہوجاتا ہے۔ زائد خون بہنےکے نتیجے میں خون کی کمی کا شکار نہیں ہوتیں کہ مائیں اپنی خوراک پر خاص توجّہ دیتی ہیں۔پھر بچّوں کو اپنا دودھ پلانے والی ماؤں میں ڈیپریشن کی شرح کم پائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، بُلند فشارِ خون، جوڑوں کا درد، خون میں چکنائی کی مقدار میں اضافہ، امراضِ قلب، ذیابطیس اور زچگی کے بعد مخصوص دِنوں سے زائد عرصے تک ماہ واری سے بھی بچاتا ہے۔ یہ وقت اور پیسے دونوں کی بچت کرتا ہے کہ ڈبّے کے دودھ کی خریداری اور بنانے کے عمل میں وقت ہی نہیں، پیسا بھی ضایع ہوتا ہے۔٭کن حالات میں ماں، بچّے کو اپنا دودھ نہیں پلا سکتی:اگر ماں نشہ آور اشیاء استعمال کرتی ہے، تو بچّے کو اپنا دودھ پلانے سے اجتناب برتے۔ ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا ماں کا بچّہ بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے ایچ آئی وی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں، اگر ماں ٹی بی کا شکار ہے، تو بھی بچّے میں مرض منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔البتہ کووِڈ-19 سے متاثرہ ماں، بچّے کو اپنا دودھ پلاسکتی ہے۔٭ دودھ پلانے کے دوران پیش آنے والے مسائل :اکثر دودھ پلانے کے دوران ماؤں کو بھی چند ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ مثلاً: کم مقدار میں دودھ آنا:زیادہ تر مائیں، بچّے کو صرف اس لیے دودھ پلانا چھوڑ دیتی ہیں کہ اُن کے خیال میں دودھ بچّے کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ عمومی طور پر یہ غلط فہمی اُس وقت پیدا ہوتی ہے، جب ابتدائی دِنوں میں گاڑھا پیلا دودھ آتا ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ یہ دودھ نہیں، مگر بچّے کے جسم میں منتقل ہو کر اُس کی تمام تر غذائی ضروریات پوری کرتا ہے۔ بچّے کو دودھ نہ پلانے کی دوسری بڑی وجہ ماؤں کا رات کے وقت بچّے کو فیڈر کے ذریعے دودھ پلانا ہے۔ کیوں کہ جب بچّے کو فیڈر سے تیزی سے دودھ فراہم ہوتا ہے، تو وہ ماں کا آہستہ آہستہ آنے والا دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے اور مائیں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ’’ ہم نے تو بہت کوشش کی، مگر یہ خود ہی نہیں پیتا‘‘۔اکثر مائیں پوچھتی ہیں کہ ہمیں کیسے پتا چل سکتاہے کہ بریسٹ فیڈنگ سے بچّے کا پیٹ بَھررہا ہے۔ تو اگر بچّہ دِن میں 6 سے 8ڈائپر گیلے کرلیتا ہے،تو اس کا مطلب ہے کہ اسے مناسب مقدار میں دودھ مل رہا ہے، لہٰذا اسے ڈبّے کا دودھ دینے کی قطعاً ضرورت نہیں۔یاد رکھیے، اگربچّے کو بار بار دودھ پلایا جائے، تو ایک سے دو ہفتے میں قدرتی طور پر مناسب مقدار میں دودھ آنے لگتا ہے۔اس کا اندازہ بچّے کے وزن اور پیشاب کی مقدار سے لگایا جاسکتا ہے۔نِپل میں زخم پڑجانا:یہ شکایت عام طور پر بچّے کے منہ میں پورا نِپل اندر نہ جانے کی صُورت میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر نِپل کا پورا براؤن حصّہ بچّے کے منہ میں جائے، تو اس تکلیف سے بچا جاسکتا ہے۔علاوہ ازیں، معالج کے مشورے سے مرہم یا دوا بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ زیادہ دودھ بَھر جانے کی وجہ سے بریسٹ متورم ہوجانا: یہ علامت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔اس صُورت میں تولیے کو کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈے پانی میں ڈبو کر اس سے متاثرہ جگہ سینکائی کی جائے اور ہاتھ یا پمپ کے ذریعے اضافی دودھ نکال لیا جائے۔ افاقہ نہ ہونے کی صُورت میں فوری طور پرمعالج سے رابطہ کریں۔ بریسٹ انفیکشن: اگر بریسٹ میں کسی بھی سبب جراثیم داخل ہوجائیں، تو یہ سُرخ ہو کر سُوج جاتی ہے۔ بعض اوقات اس کی وجہ سے بخار بھی ہوجاتا ہے۔بہتر تو یہی ہے کہ اپنی ڈاکٹر سے رجوع کرلیا جائے،تاکہ اینٹی بائیوٹکس اور دیگر ادویہ تجویز کی جاسکیں۔ علاوہ ازیں، گرم پانی میں تولیا بھگو کرمتاثرہ جگہ کی دِن میں چاربار15 سے 20 منٹ تک سینکائی کریں۔٭ کسی طبّی مسئلے کے سبب دودھ پلانا ممکن نہ ہو، تو کیا کیا جائے:اگر بچّے کو کسی بھی سبب دودھ نہ پلایا جائے، تو ایسی ادویہ دستیاب نہیں، جن کے استعمال سے دودھ بننے کا عمل رُک جائے۔ عام طور پر دودھ بننے کے عمل میں بتدریج ہی کمی واقع ہوتی ہے۔ البتہ اس عرصے میں سینکائی کے ساتھ معالج کی ہدایت پر سُوجن اور درد کم کرنے والی ادویہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔٭ملازمت پیشہ مائیں بچّے کو اپنا دودھ کیسے پلائیں؟ملازمت پیشہ خواتین عموماً بچّے کو اپنا دودھ نہیں پلاپاتیں۔ انھیں چاہیے کہ گھر سے نکلتے وقت بچّے کو لازمی دودھ پلائیں،جب کہ ہاتھ یا پمپ کے ذریعے دودھ نکال کر اسےذخیرہ بھی کرسکتی ہیں، جو بچّے کو ماں کے گھرواپس آنے تک پلایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ دودھ فریج میں رکھ لیں، تو دو دِن تک قابلِ استعمال رہتا ہے، جب کہ فریز کرنے کی صُورت میں چھے ماہ تک کارآمد رہتا ہے۔ البتہ اسے مائیکروویو میں یا چولھے پر قطعاً گرم نہ کریں کہ اس طرح اس کی بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ ایک پیالی میں ضرورت کے مطابق دودھ نکال لیں اور اس پیالے کو کسی گرم پانی کے برتن میں رکھ دیں۔٭نئی ماں بننے والی خواتین کے لیے چند مفید مشورے/ تجاویز:اپنی گائناکولوجسٹ سے بچّے کو دودھ پلانے سے متعلق معلومات حاصل کریں۔اگر کسی مرض سے شفا کے لیے ادویہ استعمال کررہی ہیں،تو ڈاکٹر کو لازماً بتائیں۔ آپ کی رسائی کسی بریسٹ فیڈنگ کلاس تک ہو، تو اس میں ضرور شامل ہوں۔متوازن غذا استعمال کریں۔ اگر ماں کسی سبب بچّے کو اپنا دودھ نہیں پلاسکتی ،تو اس کے لیے کسی دوسری خاتون کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں یا وہ کسی اور ماں کے ساتھ بچّے کی دیکھ بھال کا اشتراک کرسکتی ہے۔ جڑواں یا اس سے زائد بچّوں کی پیدایش کے بعد اپنا دودھ پلانا ایک مشکل چیلنج ہے، کیوں کہ ہر بچّے کی بھوک کا وقت مختلف ہوتا ہے۔ تاہم، قدرتی طور پر ایسی ماؤں میں دودھ بننے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔اس ضمن میں معالج سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔٭عوامی مقامات پر بچّوں کو دودھ پلانے کی سہولت :کسی بچّے کوماں کےدودھ سے محروم رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہےاور اس ضمن میں کچھ قوانین تشکیل دئیے گئے ہیں، جن پر متعدّد مُمالک میں سختی سے عمل بھی کیا جاتا ہے،مگر افسوس کہ ہمارے یہاں ان قوانین پر کہیں عمل درآمد نظر نہیں آتا ہے، لہذا حکومت کو چاہیے کہ اس ضمن میں قانون سازی کرے،تاکہ دودھ پلانے والی ماؤں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ نسواں ہیں۔کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں ،جب کہ مختلف اسپتال میں بطور کنسلٹنٹ فرائض انجام دے رہی ہیں)
التماسِ دعا
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ

Generational beauty tips

 نسل در نسل چلنے والی بیوٹی ٹپس

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
‏السَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكافتُهُ

خواتین اپنی جلد کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہیں، اسکول، کالج کی طالبات یا پھر دفتر میں کام کرنے والی خواتینکے جلدی مسائل تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتی نظر آتی ہیں۔ خوبصورتی بڑھانے اور جلد کے مسائل حل کرنے والے 3 طریقے درج ذیل ہیں جو نسل در نسل آپ تک پہنچتے ہیں۔

ہلدی کا فیس ماسک

ہر  گھر کے کچن میں استعمال ہونے والی ہلدی کے بے شمار طبی فوائد ہیں، یہ کھانے میں ذائقہ بڑھانے کے ساتھ خوبصورتی بڑھانے میں بھی کام آتی ہے، ایک کھانے کا چمچ پسی ہوئی ہلدی لیں ، اس میں دودھ کے ساتھ بیسن یا چکی کا آٹا شامل کریں ، ا ب اس مرکب کو اپنے چہرے ، ہاتھ، پاؤں، گردن اور بازوؤن پرلگائیں اور 10 سے 15 منٹ کے لیے چھوڑ دیں، سوکھنے پر اسے ہلکے ہاتھ سے مساج کرتے ہوئے ٹھنڈے پانی سے دھو لیں، اس کے روزانہ استعمال سے جلد پر سورج کی شعاؤں کے مضر اثرات، مردہ خلیے، داغ دھبے صاف ہونے کے ساتھ ساتھ رنگت بھی نکھر جائے گی۔

 ملتانی مٹی کا فیس ماسک

صدیوں پرانا خوبصورتی کا ایک سستا ترین طریقہ جسے اکثر خواتین نظر انداز کر کے مہنگی کاسمیٹکس اشیاء کا استعمال کر کے جلد خراب کر بیٹھتی ہیں، ملتانی یا چکنی مٹی جلد کو جھریوں سے نجات دلانے اور سورج کی شعاؤں سے جل جانے والی جلد کے لیے ایک بہترین نسخہ ہے۔ملتانی مٹی میں پانی یا دودھ ملا کر ماسک بنائیں، اسے مزید فائدہ مند بنانے کے لیے اس پیسٹ میں شہد کے چند قطرے ، پسا ہوا پودینہ، ایلوویرا جیل یا ہلدی بھی ملائی جا سکتی ہے، اس پیسٹ کو چہرے اور گردن پر 15 سے 17 منٹ تک لگائیں اور سوکھنے پر ٹھنڈے پانی سے دھو لیں اور چہرہخشک کر لیں۔ یہ مرکب کیل ، مہاسوں اور اضافی چکنائی کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔

 نمک یا چینی کا اسکرب

کھانے کے دو اہم جز نمک اور چینی جو کھانے کو نمکین یا میٹھا بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں انہیں چہرے کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔چینی میں گلوکوز اور نمک میں ایکسفو لیٹنگ خصوصیات ہونے کے سبب جب ان دونوں کو ملا کر استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج حیرت انگیز ہوتے ہیں۔اس ماسک کے لیے ایک کھانے کے چمچ چینی میں آدھا کھانے کا چمچ نمک اور آدھا کھانے کا چمچ شہد ملا کر چہرے پر ہلکے ہاتھوں سے 5 منٹ مساج کریں، اس کے بعد ٹھنڈے پانی سے چہرے کو دھو لیں، اس کے بعد چہرہ صاف کر لیں اور کوئی اچھی سی مو سچرائزنگ کریم لگالیں، بہترین نتائج کے لیے ہفتے میںکم از کم 3 بار ضرور اس عمل کو دہرائیں۔

التماسِ دعا

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ

ضروری بات
اس میں شامل تمام مواد کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا ہے اور اسے طبی مشورے کے طور پر نہیں لیا جانا چاہئے۔ قارئین کو صحت سے متعلق کسی بھی معاملے کے بارے میں صحت سے متعلق متعلقہ پیشہ ور افراد سے رابطہ کرنا چاہئے۔

We Bring, You Well Researched and Experimental  Content Reviewed By Field Experts, Offering You To Best In Health.
All content on this Group aims to provide information only and should not be taken as medical advice. No advice should be taken solely on the basis of the website content; instead, readers should get in touch with relevant health professionals regarding any health-related matter.
 

Get rid of facial wrinkles with these simple recipes

ان آسان نسخوں سے چہرے کی جھریوں سے نجات حاصل کریں

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
‏السَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اپنے چہرے پر جھریاں دیکھنا کس کو اچھا لگتا ہوگا؟ خاص طور پر تب جب عمر زیادہ بھی نہ ہو اور نوجوانی کا وقت ہی ہو۔
تام ان جھریوں کو چھپانے یا ختم کرنے کے لیے لوگ اکٹر مہنگی کریموں اور طبی طریقہ کار کو اپنانا چاہتے ہیں۔
اگر آپ بھی ایسا ہی کچھ سوچ رہے ہیں تو ان قدرتی نسخوں کو بھی آزما کر دیکھ لیں ہوسکتا ہے یہ آپ کے لیے کافی مؤثر ثابت ہوں۔
 زیتون کا تیل
قدرتی زیتون کا تیل آپ کی جلد کو ملائم اور لچکدار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اپنے چہرے پر سونے سے قبل زیتون کے تیل کے چند قطروں کا مساج کریں اور نرم تولیے سے صاف کردیں۔ جب صبح آپ سو کر اٹھیں گے تو جلد نرم اور صحت مند نظر آئے گی۔
 انڈے کی سفیدی
کسی چھوٹے ڈونگے میں کئی انڈوں کی سفیدی کو مکس کرلیں۔ اس مکسچر کا مساج اپنی جلد پر کریں، اور پھر کم از کم پندرہ منٹ تک خشک ہونے دیں۔ اس کے بعد گرم پانی سے دھولیں اور انڈوں کی سفیدی میں شامل قدرتی وٹامن بی اور وٹامن ای کو جھریوں پر قابو پانے کا کام کرنے دیں۔
 پھل اور سبزیاں
تازہ پھل اور سبزیاں وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور ہوتی ہیں جو آپ کی جلد کو گداز بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جلد چمکنے لگی ہے۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا جوس خود بناکر پینے کو عادت بناکر بھی آپ یہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
 مساج
اپنے کسی پسندیدہ لوش کو لیں، چند منٹ تک اپنے چہرے پر نرمی سے اس کا مساج کریں۔ زیادہ توجہ متاثرہ حصوں جیسے گردن، آنکھوں کے نیچے اور کہنی پر دیں۔ اس کا ایک اور علاج بھی ہے یعنی کسی اچھی جگہ سے فیشل کرانا جو فائدہ مند بھی ثابت ہوتا ہے۔
 لیموں کا عرق
ایک لیموں کے ٹکڑے کریں اور اس کے عرق کا مساج چہرے پر موجود جھریوں پر کریں۔ لیموں میں موجود تیزابیت جلد کو روشن کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے جبکہ جھریوں کا نمایاں ہونا کم ہوجاتا ہے۔

التماسِ دعا
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ

Get rid of facial wrinkles with these simple recipes

ان آسان نسخوں سے چہرے کی جھریوں سے نجات حاصل کریں

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
‏السَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اپنے چہرے پر جھریاں دیکھنا کس کو اچھا لگتا ہوگا؟ خاص طور پر تب جب عمر زیادہ بھی نہ ہو اور نوجوانی کا وقت ہی ہو۔
تام ان جھریوں کو چھپانے یا ختم کرنے کے لیے لوگ اکٹر مہنگی کریموں اور طبی طریقہ کار کو اپنانا چاہتے ہیں۔
اگر آپ بھی ایسا ہی کچھ سوچ رہے ہیں تو ان قدرتی نسخوں کو بھی آزما کر دیکھ لیں ہوسکتا ہے یہ آپ کے لیے کافی مؤثر ثابت ہوں۔
 زیتون کا تیل
قدرتی زیتون کا تیل آپ کی جلد کو ملائم اور لچکدار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اپنے چہرے پر سونے سے قبل زیتون کے تیل کے چند قطروں کا مساج کریں اور نرم تولیے سے صاف کردیں۔ جب صبح آپ سو کر اٹھیں گے تو جلد نرم اور صحت مند نظر آئے گی۔
 انڈے کی سفیدی
کسی چھوٹے ڈونگے میں کئی انڈوں کی سفیدی کو مکس کرلیں۔ اس مکسچر کا مساج اپنی جلد پر کریں، اور پھر کم از کم پندرہ منٹ تک خشک ہونے دیں۔ اس کے بعد گرم پانی سے دھولیں اور انڈوں کی سفیدی میں شامل قدرتی وٹامن بی اور وٹامن ای کو جھریوں پر قابو پانے کا کام کرنے دیں۔
 پھل اور سبزیاں
تازہ پھل اور سبزیاں وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور ہوتی ہیں جو آپ کی جلد کو گداز بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جلد چمکنے لگی ہے۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا جوس خود بناکر پینے کو عادت بناکر بھی آپ یہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
 مساج
اپنے کسی پسندیدہ لوش کو لیں، چند منٹ تک اپنے چہرے پر نرمی سے اس کا مساج کریں۔ زیادہ توجہ متاثرہ حصوں جیسے گردن، آنکھوں کے نیچے اور کہنی پر دیں۔ اس کا ایک اور علاج بھی ہے یعنی کسی اچھی جگہ سے فیشل کرانا جو فائدہ مند بھی ثابت ہوتا ہے۔
 لیموں کا عرق
ایک لیموں کے ٹکڑے کریں اور اس کے عرق کا مساج چہرے پر موجود جھریوں پر کریں۔ لیموں میں موجود تیزابیت جلد کو روشن کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے جبکہ جھریوں کا نمایاں ہونا کم ہوجاتا ہے۔

التماسِ دعا
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ

Eliminate facial freckles and wrinkles

چہرے کی جھائیاں اور جھریاں ختم

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
‏السَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
چہرے کی جھائیاں اور جھریاں ختم کرنا چاہتی ہیں تو مہنگی کریم اور بیوٹی پراڈکٹس کا استعمال چھوڑیں اور جانیں کہ کیسے باورچی خانے میں موجود اجزاء سے آپ اپنی جلد کو جوان بنا سکتی ہیں
آج کل خواتین اپنے چہرے کے مسائل کے لئے بے شمار بیوٹی پراڈکٹس کا استعمال کرتی ہیں اور چہرے سے جھریاں، فائن لائینز اور جھائیاں ختم کرنے کے لئے مہنگی مہنگی کریموں پر ہزاروں روپے خرچ کرتی ہیں۔
مگر آج ہم بتانے جا رہے ہیں چند ایسے نسخے جن سے آپ خود گھر میں اپنے چہرے جھریوں کا علاج کر سکتی ہیں، وہ بھی بہت آسانی سے، تو چلیں پھر دیر کیسی طریقہ جان لیں۔
 کھیرے اور ایلوویرا کی کولڈ کریم:
کھیرے اور ایلوویرا کی کولڈ کریم سے آپ کے چہرے میں نمی بحال ہو گی اور یہ آپ کی اسکن کو موسچرائز اور ہائیڈریٹ کرے گا، جس سے چہرے پر قدرتی نکھار آئے گا۔
اجزاء :
ایک چوتھائی کپ کھیرے چاپ کردہ
آدھا کپ تازہ دہی
آدھا کپ تازے لیموں کا رس
ایک چوتھائی کپ ایلوویرا جیل گرینڈ کیا ہوا
 طریقہ استعمال :
تمام اجزاء کو ملا کر گرینڈر میں گرینڈ کر لیں، اب اسے باریک چھنّی میں چھان لیں۔
پھر اس آمیزے کو ائیر ٹائٹ کنٹینر میں ڈال کر رات بھر کے لیے فریج میں رکھ دیں۔
اب روزانہ اس کریم کو آدھے گھنٹے کے لیے لیپ کی طرح چہرے پر لگائیں اور آدھے گھنٹے بعد سادے پانی سے دھو لیں۔
 شہد, تخم ملنگا اور سیب کا اسکرب :
شہد چہرے کے کھلے مسام، اور ان میں موجود گندگی اور مٹی کو دور کرتا ہے، ساتھ ہی یہ جلد کو نرم وملائم اور موسچرائز بھی کرتا ہے جبکہ سیب چہرے کی رنگت جو نکھارتا ہے اور بلیچنگ ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے یہ اسکرب آپ کی جلد کو جوان بنائے گا۔
جزاء:
آدھا کپ باریک چاپ کردہ سیب
2 کھانے کے چمچ شہد
2 کھانے کے چمچ تخم ملنگا
 طریقہ استعمال :
شہد، تخم ملنگا اور سیب کو گرینڈر میں ڈال کر گرینڈ کر کیں، گاڑھے پیسٹ جیسا آمیزہ بنا لیں چاہیں تو حسب ضرورت پانی کا استعمال کریں۔ اب اسے پانچ منٹ کے لیے رکھ دیں۔
پھر چہرے پر اس سے اسکرب کریں اور کچھ دیر بعد مساج کر کے نیم گرم پانی سے چہرہ دھو لیں۔
چاول اور دودھ کا کلینزر:
چاول چہرے کے جلد کو ٹائیٹ کرتا ہے، مسام کو بند کرتا ہے، اس میں وٹامن ای کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو اسکن کو ایکسفولیٹ کرتی ہے، جبکہ دودھ قدرتی نکھار فراہم کرتا ہے۔
اجزاء:
ایک چوتھائی کپ چاول کا آٹا
2 سے 3 چمچ دودھ
 طریقہ استعمال :
چاول کے آٹے کو دودھ میں ملا کر رکھیں۔
اب اس پیسٹ کو چہرے پر لگائیں۔
کچھ دیر مساج کرنے کے بعد لگا چھوڑ دیں۔
پھر چہرہ نیم گرم پانی سے دھو لیں اور کوئی ٹونر یا لوشن لگا لیں۔
التماسِ دعا
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ

Home remedies for menstrual irregularities

ماہواری میں بے قاعدگی کا گھریلو علاج

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
‏السَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
ایسے میں ایک ماہواری سے دوسری ماہواری تک کا وقفہ ۳۵ دن سے زیادہ ہوجاتا ہے۔اصولی طور پر دو ماہواری کا وقفہ۲۱ سے ۳۵ دن تک کاہونا چاہیے۔ جب کہ یہ دوسے سات دن تک جاری رہتا ہے۔ عام طور پر ایک عورت کو سال میں گیارہ سے تیرہ ماہواریاں ہوتی ہیں۔لیکن ماہواری کی بے قاعدگی کا شکارعورتوں کو سال میں چھ سے سات مرتبہ یا اس سے بھی کم ماہواری ہوتی ہے۔اس میں یا تو ایک ماہواری سے دوسری ماہواری کا وقفہ طویل ہو جاتا ہے یا پیریڈز کا وقت سات دن سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے،اس کے علاوہ غیر معمولی خون کا اخراج(عام اخراج سے کم یازیادہ )بھی ماہواری کی بے قائدگیوں میں شامل ہے اس مسئلے کی کئی وجوہات ہیں،ان میں کھانے میں بے قاعدگی،وزن کا حد سے زیادہ بڑھنا یا گھٹنا،خون کی کمی،حیض کے دائمی طور پر بند ہونے کا وقت قریب آنا(مینو پوز)،تھائیرائڈ کی بے ترتیبی اور ہارمونز کا متوازن نہ ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ جگر کی بیماری،ٹی بی،آنتوں میں سوزش، شوگر یا حال ہی میں بچے کی ولادت یا حمل گر جانااور دوسری صورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔اسی طرح زیادہ ورزش ،سگریٹ نوشی،الکوحل کا استعمال ،سفر،ذہنی دباؤاور بعض دواؤں کا استعمال اور مانع حمل گولیاں بھی اس مسئلے کا سبب بن سکتی ہیں۔۲۰۰۵ ؁میں ہورپین تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ تیز بخار اور استھما بھی اس بے قاعدگی کی وجہ بن سکتا ہے۔ماہواری کی بے قاعدگی شروع کے چند سالوں میںیاحیض بند ہونے سے پہلے ہوتی ہے۔مزید یہ کہ ہر عورت کی اپنا ایک انفرادی نظام ہوتا ہے،لہذا معمولی بے قاعدگی میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری نہیں۔
یہاں ماہواری کو با قاعدہ بنانے کے لئے کچھ گھریلو علاج تحریر کئے جا رہے ہیں:
 ادرک
ادرک کا استعمال ماہوار ی کو صحیح کرنے کے ساتھ اس کے درد سے بھی نجات دلاتا ہے اور دیر سے ہونے والی ماہواری کو صحیح وقت پر لے آتا ہے۔
۔ڈیڑھ چائے کا چمچ تازہ پسی ہوئی ادرک کو ایک کپ پانی میں پانچ سے سات منٹ تک ابالیں۔
۔تھوڑی چینی ملالیں
۔دن میں تین مرتبہ ہر کھانے کے بعد پیءں۔
۔ایک مہینہ یا اس سے زیادہ استعمال کریں۔
 دارچینی
دار چینی گرم تاثیر رکھتی ہے، ماہواری میں ہونے والی اکڑاہٹ کو دور کرتی ہے۔انسولین کی مقدار کو متوازن کرتی ہے جو پیریڈزکی باقاعدگی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے کے جن خواتین کی اووریز میں پولی سسٹ بن جاتی ہے اس میں بھی یہ فائدہ مند ہے۔اور ماہواری کو جا ری کرتی ہے۔
۔ڈیڑھ چائے کا چمچ دارچینی پاؤڈرایک گلاس دودھ میں ملائیں،اور روزانہ کئی ہفتوں تک استعمال کریں۔
۔دارچینی کی چائے بھی پی سکتے ہیں،یا دارچینی پاؤڈر اپنے کھانے میں چھڑک کر کھائیں۔یا دارچینی کا ٹکڑاروزانہ چبا کر کھائیں۔
 تل اور گڑ
تل ہارمونز کی مقدار کو مناسب کرتے ہیں جس سے ماہواری وقت پر ہوتی ہے،یہ ہارمونز کی زیادتی کو روکتے اور کمی کو پورا کرتے ہیں۔
گڑکی تاثیر بھی گرم ہوتی ہے۔اور یہ بھی ماہواری کو آسان اور باقاعدہ بناتا ہے۔
۔ایک مٹھی تل کو سوکھا بھون لیں۔
۔ایک چائے کا چمچ گڑ اور تل ملا کر پیس کر پاؤڈر بنالیں۔
۔روزانہ ایک چمچ نہارمنہ کھائیں۔دونوں ماہواریوں کے درمیانی حصے میں یا ماہواری سے دو ہفتہ پہلے شروع کریں۔کچھ ماہ تک جاری رکھیں
خالی گڑ کا ایک ٹکڑا روزانہ کھانے سے بھی یہ نظام ٹھیک رہے گا۔
نوٹ:ماہواری کے دوران یہ دوا استعمال نہ کریں۔
 ایلوویرا
ہارمونز کی بے ترتیبی کو درست کرکے ماہواری کو باقاعدہ بناتا ہے۔
۔ایک پتے سے ایلوویرا جیل نکال لیں۔
۔ایک چائے کا چمچ شہد کے ساتھ ملا لیں ۔
۔صبح نہار منہ استعمال کریں
۔یہ علاج تین ماہ تک جاری رکھیں۔
نوٹ:ماہواری کے دوران نہ لیں۔
 کچا پپیتہ
کچا پپیتہ یوٹرس کے پٹھوں کی کارکردگی کو درست کرتا ہے۔خاص طور پر ان خواتین کے لئے جن کا حیض بند ہونے والا ہو۔کچے پپیتے کا رس کچھ ماہ تک استعمال کریں۔لیکن پیریڈ کے دوران نہ لیں۔
 ہلدی
ہلدی کی تاثیر گرم ہے۔ماہواری کو باقاعدہ بنانے کے ساتھ درد کو بھی کم کرتی ہے۔
۔ایک چوتھائی چائے کا چمچ ہلدی دودھ ،شہد یا گڑ کے ساتھ لیں۔
روزانہ استعمال کریں جب تک آپ فرق محسوس نہ کر لیں۔
 ثابت دھنیہ
ایک چائے کا چمچ دھنیہ دو کپ پانی میں اتنا ابالیں کہ ایک کپ رہ جائے،چھان کر دن میں تین دفعہ پیریڈ سے پہلے استعمال کریں۔
کچھ مہینوں تک جاری رکھیں۔
سونف
سونف کا استعمال بھی ماہواری کو باقاعدہ بنانے کے لیے بہت ہے۔
ایک گلاس پانی میں دو کھانے کے چمچ سونف پوری رات کے لیے بھگودیں اور صبح چھان کر پی لیں۔
ایک مہینے تک یا جب تک آپ کے ایام باقاعدہ نہ ہوجائیں استعمال کریں۔
 پودینہ
سوکھا پودینہ اور شہد بھی ماہواری کا بہترین علاج ہے۔
ایک چائے کا چمچ سوکھا ہوا پودینہ پاؤڈر کی شکل میں ایک چائے کا چمچ شہد کے ساتھ ملا کر دن میں دفعہ لیں۔
کچھ ہفتے تک استعمال کریں۔
 گاجر کا رس
گاجر میں آئرن کی وافر مقدار موجود ہے ۔ اس لیے اس کا رس ماہواری کو باقاعدہ بنانے کے لیے بہترین ہے۔اس کے علاوہ ثابت گاجر بھی ہارمونز کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔
ایک گلاس گاجر کا جوس تین ماہ تک پئیں ۔آپ اس کو کسی اور سبزی کے ساتھ بھی ملا کر پی سکتی ہیں۔
التماسِ دعا
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ

Licorice Symptoms, Causes and Home Remedies

لیکوریا کی علامات،وجوہات اور گھریلو علاج

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
‏السَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
لیکوریا (leukorrhea) کوئی بیماری نہیں بلکہ کئی بیماریوں کابطور نتیجہ اور ساتھ ساتھ یہ کئی نئے ہونے والے انفیکشن اور بیماریوں کی وجوہات ہوسکتی ہے۔یہ خواتین کے پوشیدہ عضو سے بہنے والاسفید یاپیلے رنگ کا مادہ ہوتاہے۔اگر چہ یہ ڈسچارج جینیٹل صحت کو برقرار رکھنے کے لئے اہم ہے لیکن خارج ہونے والے مادہ میں تبدیلیوں کو روکنے کے لئے طبی توجہ کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔تاکہ انفیکشن سے بچاجاسکے۔اس ڈسچارج کااصل مقصد جسم سے نقصان دہ بیکٹیریا اوردیگر حیاتیات کاجسم سے نکلنا ہے۔
اگر یہ ڈسچارج سفید اور بدبو کے بغیر ہوتو نارمل سی بات ہے لیکن اگر یہ گاڑھااور بدبو دار ہو تو لیکوریاہے۔لیکوریا کی عام طور پر دواقسام ہوتی ہیں۔پہلی فزیولوجیکل اور دوسری پیتھولوجیکل ۔
۔فزیولوجیکل لیکوریاسے مراد جسمانی عوامل جیسے جوش و خروش یاگھبراہٹ ہیں۔مثال کے طور پر لڑکیوں میں بلوغت کے دوران ہارمونل تبدیلیاں، اوویولیشن سائیکل اورکم عمری میں حمل اور سیکسشوئل ایکسائٹمنٹ وغیرہ
 ۔پیتھولوجیکل لیکوریا نامناسب غذا اور صحت کی خرابی کے باعث ہوتاہے۔ جینیٹل ٹریک انفیکشن بھی اسکی بڑی وجہ ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ نفسیاتی عوامل کا بھی نتیجہ ہوسکتاہے۔
 لیکوریا کی علامات (symptoms of leukorrhea)
اسکی علامات ہر خاتون میں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن بعض میں ایک ساتھ کئی علامات بھی ہوسکتی ہیں۔جو مندرجہ ذیل ہیں۔
اندام نہانی سے سفید یاپیلا اوربدبودارمادہ کااخراج،پنڈلیوں اور ریڑھ کی ہڈی میں درد،پیٹ کے حصے میں بھاری پن،سستی اور کاہلی،اندام نہانی میں خارش،قبض،بار بار سردرد، عمل انہضام کے مسائل،چڑچڑاپن،آنکھوں کے نیچے جلد پر کالے پیچزعام علامات ہیں۔
 وجوہات
 نامناسب طرز زندگی (Vitality) اور غیر متوازن کھانے کی عادات،رحم کے نچلے گردن نما حصے کاورم، ہارمونل عدم توازن،جینیٹل زخم جو اضافی کھجلی کاسبب بنتے ہیں۔نامناسب جینیٹل ہائیجین،بیکٹیریل اورفنگل انفیکشن،بدہضمی،قبض ،خون کی کمی،ذیابیطس ،کثرت حیض،کشیدگی اور تشویش ،نوجوان لڑکیوں میں یہ حیض شروع ہونے کے ایک سال پہلے یاایک سال بعد ہوسکتا ہے۔
بہت سی خواتین ڈلیوری (women pregnancy)  کے بعد اس مرض کاشکار ہوجاتی ہیں۔اسطرح کے معاملات یوٹرائن انفیکشن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اندام نہانی میں سوزش بھی اسکاسبب بنتی ہے۔اسکے لئے فوری طور پر طبی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دیگر بیماریوں اور انفیکشن سے بچاجاسکے۔
یہ مرض اچانک شدت اختیار نہیں کرتا۔لیکوریاخواتین کے تولیدی نظام میں ایک یاایک سے زائد اعضاء کو متاثر کرسکتاہے۔ جسم میں ٹاکسن کاجمع ہوناغیر معمولی نہیں ہے یہ خواتین میں جینیٹل نظام میں ٹاکسک حالت کی وجہ سے ہوتا ہے۔جو ناقص اور غیر متوازن غذا کے سبب ہوتاہے۔
جب باڈی آرگن جیسے گردے،آنتیں اور جلد جسم سے ان ٹاکسن کو نکالنے میں ناکام ہوتی ہیں تو نتیجے کے طور پر جسم ان ٹاکسن کو اندام نہانی سے ڈسچارچ کی شکل میں خارج کرنے کی کوشش کرتاہے۔دائمی لیکوریاکی صورت میں سفید،پیلا یہاں تک کہ پیپ کے ہمراہ بھی ڈسچارج جاسکتاہے۔
 گھریلوعلاج (home remedies)
اس مرض کی علامات کی نشاندہی ہی اس کے علاج میں پہلاقدم ہے۔ڈاکٹر اس مرض کی وجہ کے مطابق ادویات تجویز کرتے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ اس مرض کاگھریلوعلاج بھی محفوظ طریقے سے کیاجاسکتاہے۔ان میں سے کوئی بھی ایک طریقہ علاج جو آپ آسانی سے کرسکیں اپنائیں ۔
۔کیلااس مرض میں مفید ہے کیلاکھاکر دودھ میں شہد ملاکرپیئیں۔یا ایک کیلاپر چند قطرے اصلی گھی یاصندل کی لکڑی کاتیل لگاکر صبح وشام دس دن تک استعمال کرسکتی ہیں۔اگر یہ بھی مشکل ہوتو صرف دوکیلے اور تین چمچ شہد ملا کرکھالیں۔
۔بھنے ہوئے چنے،مصری یاگڑ، تھوڑاساچندیاگوندھ،اور چند دانے چھوٹی الائچی باریک پیس کر شیشے کی بوتل میں رکھ لیں اور ایک چمچ صبح اور ایک چمچ سونے سے پہلے کھالیں۔مرض کی شدت میں دو چمچ کھاسکتی ہیں۔
۔چار گلاس پانی میں دو سے تین چائے کے چمچ میتھی دانہ ڈال کر آدھے گھنٹے تک پکاکرچھان کرپی لیں۔
۔را ت میں ایک گلاس پانی میں ایک چمچ ثابت دھنیا بھگودیں۔اور صبح خالی پیٹ پی لیں بہترین نتائج کے لئے ایک ہفتہ تک استعمال کریں۔ اسکے علاوہ کرین بیری کے جوس کااستعمال بھی مفید ہے۔
۔زیرہ بھون کر اگر خالی نہ کھایاجائے تو تھوڑی سی چینی ملاکر کھالیں۔
۶۔تلسی کے پتوں کارس اور شہد ہم وزن ملاکر صبح وشام پینے سے فائدہ ہوتاہے۔اگر شہد (honey) نہ ہو تو مصری لے سکتی ہیں۔
۔دس گرام سونٹھ ایک گلاس پانی میں ڈال کراتناپکالیں کہ ایک چوتھائی پانی رہ جائے ۔چھان کر پی لیں تین ہفتے تک استعمال کریں۔
۔سوگرام مونگ توے پر بھون کر پیس کر شیشی میں بھر کررکھ لیں۔روزانہ ایک کپ پانی میں آدھاکپ چاول بھگودیں۔پانی چھان کر ایک چمچ مونگ کاپاؤڈرحل کرکے روزانہ ایک بار پی لیں۔
 آپ کیاکھاتی ہیں یہ اس مرض میں اہم ہے۔
کم از کم دہی (dahi) کااستعمال روزانہ کریں۔مختلف انفیکشن اور بیماریوں سے بچنے کے لئے مکمل صفائی،ہلکی ورزش،قبض سے بچیں،چائے،کافی ،میدہ،تلی ہوئی،مصالحے دارمرغن اشیاء ترک کریں اور پھل سبزیاں استعمال کریں۔غصہ ،رنج وغم،تفکرات،ذہنی پریشانیوں سے جس حد تک ہوسکے بچیں۔
التماسِ دعا
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ

 

Comments